خبر کی تحقیق کرنا

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو۔‘‘

[حجرات ۶]

اس آیت کی روشنی میں خبر کو کیسے چیک کریں!

آج کے تناظر میں جب میڈیا اور سوشل میڈیا کا دور دورہ ہے اپنی رائے بنانے سے پہلے یہ ضرور چیک کر لیں کہ جس ادارے یا شخص سے خبر لے کر آپ اپنی رائے بنا رہے ہیں اس میں مطلوبہ خوبیاں موجود ہیں یا نہیں۔

1۔ جو خبر دے رہا ہے اس کے اخلاق اور کردار کی شہرت کیسی ہے یعنی ماضی کیسا ہے؟

2۔ ہمیشہ درست رپوٹنگ کرتا ہے یا جو چاہے بات منہ میں آئے کہہ دیتا ہے یعنی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کرتا ہے ؟

3۔ بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اس کی عادت تو نہیں ہے؟

4۔یہ دیکھیں کہ جس کے بارے میں وہ خبر دے رہا ہے اس سے اس کے تعلقات کیسے ہیں؟ کیا کوئی ذاتی تعصب، محبت یا سخت نفرت ہے یا کسی قسم کی کوئی دشمنی تو نہیں ہے؟

5۔کیا جو خبر وہ دے رہا ہے وہ ادھوری بات ہوتی ہے اور باقی پہ اس نے اپنا اندازہ قائم کیا ہوتا ہے؟

6۔ خبر دینے والے نے خود نہیں دیکھا بلکہ کسی سے سنا ہے اور وہ کسی کا حوالہ دے رہا ہے اگر حوالہ دے رہا ہے تو کیا جس کا حوالہ دے رہا ہے اس کا نام بتا رہا ہے اور حوالہ جس کا دے رہا ہے وہ معتبر ہے؟

7۔ اگر کوئی واقعے کا تذکرہ کر رہا ہے توکیا وہ اپنی خبر کے لیے کوئی ثبوت دے رہا ہے؟

8۔ اگر ثبوت یا خبر غلط ثابت ہو تو کیا وہ اس کی معافی مانگتا ہے یا ڈیلیٹ کر کے غائب ہو جاتا ہے؟

9۔اگر دو لوگوں کے درمیان کوئی واقعہ پیش آیا ہے تو اس میں دونوں طرف کا پوائنٹ آف ویو لیا گیا ہے؟ کسی پہ الزام لگا ہے تو جس پر الزام لگایا گیا ہے اس کو بھی صفائی کا موقع دیا گیا ہے یا نہیں؟

10۔ کیاتھمب نیل پر ہیڈنگ بڑی اور خبر چھوٹی ہوتی ہے؟

11۔اینکر پرسن، ادارہ یا تبصرہ و تجزیہ کرنے والا کیسی زبان بولتا ہے؟ سطحی اور گھٹیا الفاظ کا کرتا ہے یا معیاری زبان بولتا ہے؟

12۔جذباتی باتیں کرتا ہے یا عقل اور شعور اور دلیل سے بات کرتا ہے۔

13۔ مثبت، تعمیری اور عملی باتیں کرتا ہے؟ یا اس کے برعکس شخصیت پرستی، تخریبی اور منفی باتیں کرتا ہے۔

14۔ اگر کسی کی سائیڈ بھی لے رہا ہے تو کیا اس کی غلط بات کو غلط کہنے کی اس میں جرات ہے؟

15۔ خبر کے سامنے آتے ہی اس کو بریک کر دیتا ہے یا پھر مختلف ذرائع سے تسلی کر کے کہ یہ درست ہے اس پہ تبصرہ کرتا ہے یا اسے اپنی خبروں کا حصہ بناتا ہے؟

صرف خبر رساں ادارے تجزیہ نگار اینکر پرسن رپورٹنگ کرنے والوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم بھی

1۔ کسی پر اس وقت تک الزام نہ لگائیں جب تک کہ وہ عدالت سے ثابت نہ ہو جائے۔ چاہے عدالت سے انصاف کی توقع کم ہی ہو۔ اس صورت میں اسے بینفٹ آف ڈاوٹ دیا جائے گا۔

2۔ کسی خبر کے اوپر اس وقت تک یقین نہ کریں جب تک کہ وہ مختلف ذرائع سے درست ثابت نہ ہو جائے۔ نہ ہی اسے شیئر کریں جب تک کہ یہ یقین نہ ہو کہ وہ بالکل صحیح ہے چاہے وہ دین کے حوالے سے ہو، سیاست کے حوالے سے ہو یا دنیاوی امور میں سے کسی بھی موضوع سے متعلق ہو۔

3۔ بات کو صحیح ثابت کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دور حاضر کی ٹیکنالوجی کو سامنے رکھتے ہوئے اسے ان فلٹرز سے گزارا جائے۔ تصاویر کو کراپ کیا جا سکتا ہے،آواز کی نقل اتاری جا سکتی ہے اور اے آئی جنریٹڈ ویڈیوز بنائی جا سکتی ہیں؟

4۔ ایسی کسی چیز کو کبھی فارورڈ نہ کریں جس میں کسی کا مذاق اڑایا گیا ہو یا جس سے اتحاد امت کو نقصان پہنچتا ہو یا شخصیت پرستی اس کا مین تھیم ہو،کسی کے کردار پر الزام آتا ہو یا جس میں بہت بڑے بڑے دعوے کیے گئے ہوں یا برے الفاظ کا استعمال کیا گیا ہو۔

5۔ دین کے معاملے میں اور خصوصا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو فارورڈ کرتے ہوئے اس بات کا دھیان کریں کہ وہ ہر صورت مستند ہوں، حوالہ درج ہو۔ مزید تسلی کے لیےاس کو آپ ایک سے زائد مقام سے چیک کر چکے ہوں۔

6 ۔اگر کوئی ہماری پوسٹ کی غلطی کی طرف متوجہ کرے تو برا نہ منائیں، اس کا شکریہ کریں۔جن کو پوسٹ بھیجی تھی ان سب سے معذرت کریں اور صحیح بات کو ریکارڈ پر لائیں۔