مسلمانوں میں بے عملی کی وجوہات اور آج کے دور کی منافقت
۱ - آج کا مسلمان ایمان کا دعویٰ تو کرتا ہے مگر اپنے دعوے میں مخلص نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شریعت کو اپنے تابع کرنا چاہتا ہے ۔جتنا آسان لگا عمل کر لیا باقی پر حیلے بہانے سے کا م چلا لیا۔اللہ کے احکام کے حوالے سے پک اینڈ چوز کا کلچر عام ہے۔ ہر کوئی اپنی آسانی اور مرضی کے دین پر چل رہا ہے۔ اس بات کی معاشرے میں کھلی چھٹی دے دی گئی ہے کہ چاہے کچھ نہ بھی کرو یا کچھ کرو یا اپنی مرضی سے دین کو آگے پیچھے کرو اس کی اجازت ہے کیونکہ دین ایک پرائیویٹ اور ذاتی چیز ہے۔
۲ - دین اور دنیا کو الگ الگ کر لیا گیا ہے ۔دین کو صرف عبادات تک محدود کر دیا گیا ہے ۔ دنیاوی زندگی میں نفس کے بندے بن گئے اور عبادت کے موقعے پر بھی حاضر ہو گئے ۔دین کا صحیح اور مکمل تصور دور دور تک نہیں ملتا۔
۳ - اپنی کمزویوں اور کوتاہیوں پر کام نہ کرنا بلکہ ہر وقت دوسرں کو تنقید کا نشانہ بنانا ۔ہر آیت اور حدیث کو دوسروں پر fit کرنا اور اپنے آپ کو عقل کل اور نیک پارسا سمجھنا۔
۴ - قرآن کلاسز اور درس و بیان میں آنے والے برکت اور روحانیت کے لیے زیادہ آتے ہیں اور اپنی اصلاح کے لیے کم۔ درس برائے درس زیادہ ہے اور درس برائے اصلاح کم ۔ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ہم ان کلاسز میں کیوں جا رہے ہیں۔ ہمیں اپنا سوشل سرکل بڑھانا ہے یا پھر آج میرے پاس اور کرنے کو کچھ نہیں ہے تو چلو یہی کر لیں۔ عمو ماسنجیدگی اور یکسو ئی کی سخت کمی محسوس ہوتی ہے۔
۵ - دین پر مکمل عمل کرنے والے اور دوسروں کے لیے نمونہ بننے والے کم ہی نظر آتے ہیں۔ بے عملی عام ہے۔رول ماڈلز کی سخت کمی ہے۔ مقررین خود اپنی بیان کردہ باتوں اور تقریروں کو اپنے اوپر apply نہیں کرتے۔ گفتار کے غازی بہت ہیں کردار کے کم۔ جب تک معاشرے میں رول ماڈلز نہیں ہوں گے جو ہر آیت کو ایسے لیں جیسے اللہ ہم سے مخاطب ھو رہا ہے تب ہی تبدیلی آے گی۔
۶ - علماء نہی عن المنکر کا حق ادا نہیں کر رہے جیسا کہ انکی ذمہ داری بنتی ہے ۔ basics پر اکتفا ھو چکاہے آسانیاں تلاش کی جاتی ہیں ۔علماء کے گروہ اپنے اپنے حساب سے تاویلات دیتے ہیں ۔ انھیں یہ خدشہ بھی ہوتا ہے کہ ذرا سخت بات کی تو لوگ بھاگ جائیں گے۔ اس سے دین کا معیار گر گیا ہے۔ اب اسی بات پرزور ہوتا ہے کہ ایسی بات کی جائے جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ کم از کم مسلمانوں کا اسلام سے کچھ تعلق رہ جائے لہذا پابندیوں کی بات نہ کی جائے بلکہ فضیلتوں کی بات کی جائے یعنی اس مہینے اور گھڑی کی یہ اور یہ فضیلت ہے۔
۷ ۔ غلطیوں کی اصلاح اور حرام سے بچنے کے بجائے عبادات میں مزید اضافہ زندگی کے طریقے اور لائف اسٹائل بدلنے کو اکثر لوگ تیار نہیں ہوتے۔ پھراپنے اندر کی شرمندگی سے بچنے کے لیے مزیدعمرے اور نفل اور تسبیحات شروع کر دیتے ہیں۔ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ فرائض اور حلال حرام پر عمل کا متبادل نفلی عبادات نہیں ہیں۔
۸ - دین اور دنیا کو ساتھ لے کر چلنے کی مضحکہ خیز کوششیں کی جاتی ہیں۔ دین اور دنیا کو ساتھ لے کر چلنے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کو ضروری حد تک اختیار کیا جائے اور اصل توجہ آخرت پر مرکوز رکھی جائے جیسا کہ صحابہ کرام کا رویہ تھا۔ اس کے برعکس آج مسلم معاشروں کا حال یہ ہے کہ دنیا میں مکمل طور سے ڈوبے ہوئے ہیں اور کہیں دین کا تڑکا لگا کر سمجھتے ہیں کہ دین دنیا دونوں لے کر چل رہے ہیں۔ اس کی مثال مہندیوں کے موقعے پر دیکھی جا سکتی ہے پہلے ذرا دیر کا درس رکھوا لیا جاتا ہے اور پھر رات بھر ناچتے رہتے ہیں۔
۹ - نسبت رسول اور نسبت اولیاء کا باطل عقیدہ: چند مسلمان یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح عمل کے بجائے نسبت پر یقین کرنے لگے ہیں یعنی پیری فقیری میں دین تلاش کرتے ہیں۔ ہمارے مرشد ہمیں بخشوادیں گے اور ہم سیدھے جنت میں جائیں گے۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ ہر کلمہ گو کی شفاعت رسول اللہ نے کرنی ہے لہذا وہ ہمیں بچا لیں گے ۔یہ سب دین اسلام کی تعلیمات کے بالکل برعکس ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ یہود و نصاری کی ایسی سوچوں نے انھیں عمل سے فارغ کر دیا تھا۔
۱۰ - دل کی سختی اور توفیق کا اٹھا لیا جانا
جب کئی بار اللہ کا حکم سن کر بھی ڈھٹائی برتی جائے اور سن کر بھی گویا انجان بن جایا جائے تو دل سخت ہو جاتے ہیں۔جب دل سخت ہو جائیں تو عمل کی توفیق نہیں ملتی۔
اللہ سے نفاق سے بچنے اور عملی مومن بننے کی دعا کرنی چاہیے۔ وقتی، conditional اور optional اسلام سے ہی منافقت جنم لیتی ہے۔