قربانی کے مسائل
1۔ہر صاحب استطاعت کے لیے قربانی کرنا سنت موکدہ ہے یعنی بغیر وجہ کے اس سنت کو چھوڑنا ناپسندیدہ ہے۔ قربانی دس، گیارہ یا بارہ ذی الحج کو کی جا سکتی ہے۔
2۔ گھر کے سربراہ کی طرف سے ایک قربانی بھی سب گھر والوں کے لیے کافی ہے۔
3۔ اگر خواتین استطاعت رکھتی ہوں اور قربانی کرنا چاہیں تو کر سکتی ہیں۔
4۔ قربانی کا ارادہ کرنے والا شخص پہلی ذی الحج سے قربانی کرنے تک ناخن اور بال نہ کاٹے۔ اس کے گھر والوں کے لیے یہ شرط نہیں ہے۔
5۔ قربانی کے لیے پورا بکرا لینا ہو گا( بکرے میں حصے نہیں کیے جا سکتے) یا گائے کے حصوں میں سے ایک یا زائد حصے لیے جا سکتے ہیں۔
6۔ اپنے مرحومین کے لیے قربانی کرنا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قربانی کرنا سنت سے ثابت نہیں ہے۔ اگر اس موقع پر مرحومین کی طرف سے ایصال ثواب کا دل چاہتا ہو تو صدقے کی نیت سے بکرا کر سکتے ہیں مگر اس صورت میں اس میں سے اپنے لیے یا رشتہ دار اور دوست احباب کے لیے کچھ رکھنا جائز نہیں ہے۔ سارا غریبوں میں تقسیم کرنا ہو گا۔
7۔ جس جگہ آپ رہتے ہوں وہاں قربانی کرنا پسندیدہ ہے البتہ اگر ایک سے زیادہ قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو ایک کسی ایسی جگہ بھی کی جا سکتی ہے جہاں ضرورت زیادہ ہو لیکن اپنی آسانی کے لیے ہر دفعہ کسی اور جگہ پیسے بھجوا دینے سے قربانی کی روح متاثر ہوتی ہے۔
8۔قربانی میں اصل چیز خلوص نیت ہے۔ دکھاوے سے بچنا چاہیے۔کوشش کریں کہ اچھا جانور لیں(اگر استطاعت ہو) اور وہ اللہ کی راہ میں قربان کریں۔ یاد رہے عیب دار جانور کی قربانی قبول نہیں ہوتی۔ اس اچھے جانور کی تصویر لگانے یا لوگوں کو یہ بتانے سے گریز کریں کہ کتنے کا لیا ہے۔ کوئ پوچھے تو بات کو ٹال دیں۔
9۔ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنا ضروری نہیں ہے۔ سارے کا سارا بھی صدقہ دیا جا سکتا ہے۔ عموما لوگ تین حصے کرنا ضروری سمجھتے ہیں حالانکہ یہ ضروری نہیں البتہ خود کھانا، رشتہ دار و احباب کو کھلانا اور غریبوں مسکینوں میں تقسیم کرنا سب جائز و پسندیدہ ہے۔
10۔ قربانی کا گوشت اپنے لیے freeze کر کے رکھا جا سکتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سارے کا سارا گوشت اپنی دعوتوں کے لیے فریز کر لیا جائے۔ جن غریبوں کو سال بھر گوشت کھانے کو نہیں ملتا ان کو دل کھول کر دیں۔ قربانی کی روح کو کسی مرحلے پر بھی نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دیں۔